ایک مشروب جو آپ کو موٹا نہیں ہونے دیتا، سائنسدانوں نے ثبوت بھی دے دیاجہاں موٹاپہ کینسر جیسی کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتا ہے وہیں موٹاپے کا شکار شخص احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور اس مصیبت سے نجات پانے کے لیے طرح طرح کی مہنگی ادویات ،بیلٹ اور ورزشی کورسز کا سہارا لیتا ہے لیکن عموماً وزن کم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وزن کم کرنے کے چکر میں مختلف ادویات کے استعمال سے موٹاپے کے مریض اپنی صحت خراب کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، سائنسدانوں نے موٹاپے سے نجات کا ایک فطری طریقہ بتادیا ہے جس پر عمل کرکے نہ صرف آپ موٹاپے سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اپنی صحت کو بھی خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:موٹاپا ذیابیطس، دل اور خون کی بیماریاں پیدا کرتا ہے; عالمی ادارہ صحت
پولینڈ کی پوزنن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تحقیق سے پتا چلایا ہے کہ سبز چائے کا مسلسل استعمال موٹاپے کا شکار افراد کے لیے انتہائی مفید ہے اور انہیں اس سے نجات دلا سکتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موٹاپے کے مریض اس سے نجات کے لیے عموماً فاقہ کرتے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ لمبے وقت کے بعد جب وہ کھانا کھاتے ہیں تو اس کے انہضام کے بعد ان کے جسم میں کافی مقدار میں نشاستہ پیدا ہوتا ہے جو انہیں مزید موٹا بناکرتا ہے، لہٰذا وہ انجانے میں موٹاپا کم کرنے کی بجائے مزید موٹے ہوتے رہتے ہیں۔ سبز چائے میں ایسا جوہر پایا جاتا ہے جو جسم میں نشاستہ کی مقدار کم کرتا ہے جس سے آہستہ آہستہ موٹاپے کے مریض کا وزن کم ہوتا
جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:موٹاپا ذیابیطس، دل اور خون کی بیماریاں پیدا کرتا ہے; عالمی ادارہ صحت
پولینڈ کی پوزنن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تحقیق سے پتا چلایا ہے کہ سبز چائے کا مسلسل استعمال موٹاپے کا شکار افراد کے لیے انتہائی مفید ہے اور انہیں اس سے نجات دلا سکتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موٹاپے کے مریض اس سے نجات کے لیے عموماً فاقہ کرتے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ لمبے وقت کے بعد جب وہ کھانا کھاتے ہیں تو اس کے انہضام کے بعد ان کے جسم میں کافی مقدار میں نشاستہ پیدا ہوتا ہے جو انہیں مزید موٹا بناکرتا ہے، لہٰذا وہ انجانے میں موٹاپا کم کرنے کی بجائے مزید موٹے ہوتے رہتے ہیں۔ سبز چائے میں ایسا جوہر پایا جاتا ہے جو جسم میں نشاستہ کی مقدار کم کرتا ہے جس سے آہستہ آہستہ موٹاپے کے مریض کا وزن کم ہوتا
جاتا ہے۔
موٹاپے سے چھٹکارا پانا ہے تو اس ایک چیز سے ہمیشہ بچ کررہیں! ماہرین نے واضح اعلان کردیاموٹاپہ بذات خود ایک بڑی بیماری ہے جو انسان کی زندگی پر براہ راست منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ موٹاپے کا شکار افراد ہزار جتن کے باوجود اس سے نجات حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ عموماً وہ اس کی اصل وجوہات جانے بغیر ادویات اور دیگر حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس مرض کے حوالے سے ہم اپنے قارئین کو گاہے بگاہے آگہی دیتے رہتے ہیں، آج بھی ہم آپ کو اسی حوالے سے ایک نئی تحقیق کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں ۔ اس نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے موٹاپے کا تعلق بالواسطہ دماغ سے جوڑا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی پریشانی معدے سے مقعد تک جانے والی آنت میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے جس سے معدہ اور نظام انہضام متاثر ہوتا ہے اور متاثرہ شخص کا پیٹ پھول جاتا ہے، جس سے آدمی موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ہارمونز کا اتار چڑھاؤ اور کھانا دوبارہ گرم کرکے کھانے سے بھی یہ آنت متاثر ہوتی ہے لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ ذہنی پریشانی ہی ہے۔
معدے سے مقعد تک جانے والی آنت ذہنی پریشانی، خوراک، ہارمونز اور بیکٹیریا کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتی ہے۔ میرے پاس اکثر ایسے مریض آتے رہتے ہیں جنہیں ذہنی پریشانی کے باعث یہ مسئلہ لاحق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا شکار افراد کو دوست بیکٹیریا کی خوراک کا خیال رکھنا چاہیے، دوست بیکٹیریا کا خیال رکھنے کے لیے مریضوں کو لہسن ، پیاز، کاسنی کی جڑیں وغیرہ اپنی خوراک میں شامل کرنی چاہئیں۔ تیزی کے ساتھ کھانا کھانے سے بھی یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے اس لیے ہمیشہ آہستہ آہستہ کھانا چاہیے۔ آخر میں پیٹرہورویل کا کہنا تھا کہ چونکہ پریشانی آنت میں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ ہے لہٰذا اس پر توجہ بھی دینی چاہیے۔
جاری ہے
معدے سے مقعد تک جانے والی آنت ذہنی پریشانی، خوراک، ہارمونز اور بیکٹیریا کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتی ہے۔ میرے پاس اکثر ایسے مریض آتے رہتے ہیں جنہیں ذہنی پریشانی کے باعث یہ مسئلہ لاحق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا شکار افراد کو دوست بیکٹیریا کی خوراک کا خیال رکھنا چاہیے، دوست بیکٹیریا کا خیال رکھنے کے لیے مریضوں کو لہسن ، پیاز، کاسنی کی جڑیں وغیرہ اپنی خوراک میں شامل کرنی چاہئیں۔ تیزی کے ساتھ کھانا کھانے سے بھی یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے اس لیے ہمیشہ آہستہ آہستہ کھانا چاہیے۔ آخر میں پیٹرہورویل کا کہنا تھا کہ چونکہ پریشانی آنت میں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ ہے لہٰذا اس پر توجہ بھی دینی چاہیے۔
جاری ہے
 
 
 
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں